تحریر: محمد بشیر دولتی
تمہید:
حق و باطل کا معرکہ ہمیشہ جدا اور واضح رہا ہے۔ باطل ہمیشہ حق کو اوڑھ کر آتا ہے، تاکہ لوگوں کو دھوکہ دے سکے۔ میدان میں اتنی دھول اٹھے کہ کوئی چیز درست طریقے سے پہچانی نہ جائے تو اسے فتنہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاص کیفیت ہے، جو صحیح و غلط کی پہچان میں انسان کو دھوکے میں ڈالتی ہے۔
اس بارے میں امام علی ع نہج البلاغہ کے پچاسویں خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں :
"فتنوں کے وقوع کا آغاز، وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے(جیسے خود نمائی کے لئے سب کی نفی)جنہیں فروغ دینے کے لئے کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف باہم ایک دوسرے کے مددگار ہو جاتے ہیں تو اگر حق باطل کی آمیزش سے خالی ہوتا تو وہ ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق، باطل کے شائبہ سے پاک صاف سامنے آتا،تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جاتیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کردیا جاتا ہے۔اا موقع پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے ۔صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کے لئے توفیق الٰہی اور عنایت خداوندی پہلے سے موجود ہو"
یہ خطبہ خوارج کے مکر وفریب کو سمجھنے اور چاک کرنے کے لئے بہترین ہے۔ اس دور میں حق و باطل کا معرکہ مشخص تھا مگر خوارج نے حق و باطل کے امتزاج سے اپنا ایک الگ تشخص بنایا، جس سے سادہ لوح افراد دھوکہ کھا گئے۔
یہ سنت قدیمی ہے مگر جدید زمانے میں یہ مکسنگ اب گھمبیر صورت حال اختیار کی جارہی ہے۔
مقدس عقائد اور نعروں کی آڑ میں غیر محسوس انداز میں تشیع کے عقائد و نظریات کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عقائد کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں شیعوں کی سیاسی استقامت کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
"خوارج کے لا حکم الا للہ" سے لے کر سید جیکاک یعنی برطانوی جاسوس کا "علی کے چاہنے والے پیٹرول جیسی نجس چیز کو اہمیت نہیں دیتے کے دعوای تک" ایران میں انجمن حجتیہ کی تشکیل سے گروہ فرقان تک، شیخ محمود الصرخی ،حسن یمانی اور شیخ صبحی طفیلی کے مشترکہ "جمہوری سیاسی نظام میں شرکت کو حرام سمجھنے تک" ایک طویل داستان ہے۔
عراق میں صدام کے سقوط سے قبل، شیعہ اکثریتی ملک میں شیعوں کو لگام ڈالنے کے لئے، ان کی سیاسی قوت کو توڑنے کےلئے بھی اسی روش پر استعمار نے قبل از وقت کام کیا۔ شیخ محمود صرخی، حسن یمانی اور شیخ صبحی طفیلی لبنانی جیسوں کی مثال اس پر گواہ ہے۔ طول تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جو یا تو استعمار کا ہی پروردہ تھا یا پھر ان کے نظریات باطل و استعمار کے نقشے میں رنگ بھرنے کا سبب بنا ، ان کے مشن و مقصد کی کامیابی کا سبب بنا جس کے سبب باطل یا استعمار نے انہیں اپنی آنکھوں کا تارا بنادیا۔
شاہد مثال کے طور پر ہم فقط چند شخصیات اور ان کے نظریات کو پیش کریں گے۔
1.شیخ محمود صرخی
تعارف:
ان کا نام شیخ محمود صرخی ہے۔1987 میں بغداد یونیورسٹی انجینیرنگ کر کے فارغ ہوا۔1994 میں مختصر عرصے کے لئےحوزہ علمیہ نجف میں داخلہ لیا۔
یہ خود کو شہید صادق صدر، آیت اللہ سیستانی اور آیت اللہ اسحاق فیاض وغیرہ کا شاگرد کہتا ہے۔انہوں نے کچھ عرصہ بعد مدارس اور بزرگ مجتہدین کے خلاف انتہائی سخت تنقیدوں کے ساتھ حوزہ ترک کیا اور جوانوں کو اپنی طرف جلب کرنے کی کوشش شروع کی۔نجف کے علماء و طلباء میں انہیں کوئی پزیرائی نہیں ملی۔یہ اپنے نام کے ساتھ آیت اللہ بھی لکھنے لگا ہے۔ آیت اللہ کاظم حائری سمیت دیگر مراجعین نے اس کے مجتہد ہونے کی سختی سے تردید کی ہے ۔ نجف اشرف کے علمی حلقوں میں انہیں کوئی پزیرائی نہیں ملی البتہ عراق کے کالج یونیورسٹی کے طلباء اور کم پڑھے لکھے جوانوں کی ایک قلیل تعداد کو انہوں نے اپنی جانب جذب کیا۔ انہی جوانوں کو آخر حوزہ علمیہ نجف، عراق کے مجتہدین،سیاسی مذہبی تنظیموں اور ایران کے خلاف استعمال کیا گیا جس کی تفصیل ہم بعد میں ذکر کریں گے۔
دیکھا جائے تو محمود صرخی ایک انتہائی پراسرار شخصیت کا مالک ہے۔ نوے کے عشرے میں گھر پر ڈش لگانے کے جرم میں صدام حکومت نے جیل میں ڈالا۔ جیل میں بعثیوں نے اس بندے پر کافی کام کیا اس کے لئے مذہبی کورسز بھی جیل میں شروع کئے۔ جیل سے رہائی کے بعد اسے جادو ٹونہ سیکھنے کے لئے پاکستان بھیجا گیا۔
پاکستان سے واپسی کے کچھ عرصہ منظر سے غائب رہا۔ فارس نیوز کی رپورٹ کے مطابق کچھ عرصہ بعد یہ بندہ صدام کا تختہ الٹنے سے پہلے شیخ محمود التمیمی کے نام کے ساتھ دوبارہ عراق میں نمودار ہوا۔
عراقی میڈیا کے مطابق صدام حکومت کے بعد کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے ابوغریب جیل میں ڈال دیا گیا چونکہ اب اس پر امریکہ کی نگاہیں تھیں۔ابو غریب میں امریکہ ہی کے زیرسایہ اس کی تربیت ہوتی رہی ۔ امریکہ نے اسے جعلی آیت اللہ یا شیعہ مذہبی رہنما بنانے کی سرتوڑ کوشش کی۔اس بندے کو خصوصی طور پر عراق میں ایران مخالف مذہبی رہنما کے طور پر عراقی جوانوں کو ایران کے خلاف میدان میں لانے کے لئے خوب استعمال کیا گیا۔
2007 میں الکرعاوی نامی شخص سے مل کر امریکی فوج کے زیرنگرانی کربلا کے نزدیک ایک فوجی چھاونی قسم کا مضبوط مرکز بنایا۔اسی مرکز سے کربلا میں ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا گیا۔
"الخلیج الیوم" کی رپورٹ کے مطابق اسی مرکز سے آکر ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد تین سو کے قریب تھے۔
۔اسی جگہ سے نو محرم کو نجف پر حملہ کر کے کافی تعداد میں مومنین و مجتہدین کو قتل کر کے حوزہ علمیہ نجف اشرف پر قبضہ کرنے کی پلانینگ بنائی تھی ان کے اس حملے سے پہلے عراقی فوج نے اس مرکز پر حملہ کیا جس میں ساڑھے تین سو کے قریب لوگ مارے گئے۔ ایک ہزار سے زائد کم پڑھے لکھے اور عام عراقی نوجوان گرفتار ہوئے۔ اگر یہ لوگ پکڑے نہ جاتے تو انہوں نے غیر جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے شیعہ مجتہدین اور سیاست دانوں کو قتل کر کے امریکی نقشے کے عین مطابق داعشی انداز میں پورے عراق پر قابض ہونا تھاتاکہ ان کے بقول ایک شرعی و دینی حکومت قائم ہوجاتی۔
اسی الصرخی نے 2013 میں دعوای کیا تھا کہ امام زمانہ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وزیر اعظم نوری المالکی اور مہدی ملیشیا کے رہنما سید مقتدای کے سروں کو قلم کردیں۔ ان کے مطابق ایرانی حکومت کی سرپرستی میں عراقی شیعہ سیاسی مذہبی رہنماء عراق کو مہدویت و امامت سے دور کر کے سیاسی جمہوری نظام کے ذریعے ایران کا غلام بنارہے ہیں۔
اس گروہ کے اس متشدد خیالات کے سبب ہی 2006 میں ان سر پھرے جوانوں نے کربلا کے بعد بصرہ میں بھی ایرانی قونصلیٹ پر حملہ کیا تھا۔
اسی محمود الصرخی نے ہی آیت اللہ العظمیٰ السید علی سیستانی کے داعش کے خلاف دئے گئے تاریخی فتوے کو بھی مسترد کرتے ہوئے خوب مخالفت کی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صدام اور امریکہ کے بعد سعودی عرب کی انٹیلیجنس نے بھی اس بندے کی خوب تربیت کرنے کے ساتھ کافی مالی تعاون بھی کیا۔
تقریبا تین سال پہلے اربعین حسینی کے اجتماع کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی ناکامی پر کربلائے معلیٰ میں ان شرپسندوں اور بلوائیوں نے امام حسین علیہ السلام کے زائرین کی خدمت کے لئے نصب مختلف انجمنوں کے موکبوں،بینکوں اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو جلایا تھا،۔
شیخ صرخی کے بعض عقائد
1۔خود کو توحید خالص کا پیروکار کہتا ہے۔
2.خلفائے ثلاثہ سے خصوصی محبت کرتا ہے۔
3۔حضرت زہرا پر ہونے والے اکثر مظالم کا منکر ہے اس کی تبلیغ ان کے حوالے سے اغاشرف الدین کے نام سے منسوب أئی ڈی سے بھی کی جاتی رہی ہے۔
4.حرم اور قبروں کی تعمیرات کا مخالف ہے۔
5.اماموں کی عصمت کا منکر اور تعداد سے بھی اختلاف رکھتا ہے۔
6.ابن تیمیہ سے عقیدت رکھتا ہے۔
8.عزاداری کی موجودہ ہر شکل جیسے سینہ زنی، رونا پیٹنا، چیخنا چلانا اور زولجناح وغیرہ کو بدعت سمجھتا ہے۔
سیاسی نظریہ:
1.جمہوری نظام کا سخت مخالف ہے۔
2.جمہوری سیاست میں حصہ لینے والوں کو امام زمانہ کے حکم سے قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔
3.بغیر کسی سیاسی و جمہوری عمل کے داعشی انداز میں عراق کو اپنے قبضے میں لینا چاہتا ہے۔
ان تمام نظریات اور ہتھکنڈوں کے موجد و محرک محمود صرخی کو اب پاکستان و بلتستان میں متعارف کیا جارہا ہے۔ان کی شناخت شیعہ مجتہدین ، سیاسی میدان میں متحرک علمائے کرام کی توہین کرنا،اپنے علاؤہ دوسروں کو سختی سے جھٹلانا ہے۔ پاکستان و بلتستان میں کچھ لوگ شعوری یا لاشعوری طور ان کے نظریات کو پرچار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔خدارا شعور سے کام لیتے ہوئے استعمار کے ان آلہ کاروں سے ہوشیار رہیں! شکریہ
2.حسن الہیاری امریکائی:
یہ ایک افغانی طالب علم تھا جو حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم تھا۔چھوٹے موٹے مسائل ہرجگہ ہوتے ہیں ۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق حوزے میں ان کے ساتھ بھی کچھ شخصی مسائل تھے جو ادارے کی طرف سے حل نہ ہوا جس سے یہ دل برداشتہ ہوگیا۔
اسی دل برداشتگی کی حالت میں بندہ امریکہ روانہ ہوا۔ اس وقت امریکہ کی ریاست لاس اینجلس میں پرتعیش زندگی بسر کررہا ہے۔ ٹی وی چینل سمیت یوٹیوب اور فیس بک سمیت دیگر کئی سائیٹس اس کے دست اختیار میں ہیں۔
اس بندے نے بھی نظام ولایت فقیہ ، مجتہدین ،حوزہ علمیہ قم و نجف بالاخص رہبر معظم کے خلاف توہین آمیز بیانات کے ذریعے پرواز شروع کی نتیجتا امریکہ بہادر کی آنکھوں کو بھاگیا۔ کئی سال تک یہ فارسی زبان اور انگلش میں نظام ولایت فقیہ اور مجتہدین کے خلاف روحانی لباس میں زبان درازی کرتارہا۔ فارسی زبان طبقے میں روحانی لباس میں یہ بندہ چنداں کامیاب نہیں رہا۔
کچھ عرصے سے انہیں اردو زبان طبقے میں متعارف کیا گیا ہے۔ فارسی سے اردو زبان تک آتے آتے یہ بندہ عمامہ و عبا قبا سے تھری پیس و ٹائی تک پہنچ چکا ہے۔ ادھر پاکستان میں انہیں چند سالوں میں شیعہ مراکز و شیعہ نظام کے خلاف ایک گروہ کو جانی شاہ کی سرپرستی میں میدان میں اتار چکا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو دان طبقے میں اس بندے کی خوب آو بھگت ہورہی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا پر جتنی جلدی سے اس بندے نے نام کمایا اردو زبان طبقے میں کسی اور نے نہیں کمایا۔ میں خود بھی اس بندے کو سنتا رہتا ہوں۔اس بندے میں کچھ بہتری پہلے کی نسبت آئی ہے ۔ سوشل میڈیا پر اہل دیوبند کے بڑے بڑے دیووں کی ناک میں اس نے نکیل ڈال دی ہے۔یہ شیعہ علماء سے الجھتے رہنے کی بجائے دیوبندی علماء سے یونہی تاریخی مناظرہ کرتارہے تو ذیادہ اچھا ہے۔ تاریخ کے تاریخی مناظروں میں شیعہ ہمیشہ سرفراز رہا ہے۔ کوئی بھی شیعہ عقائد و منطق کے ساتھ مناظرہ کرےگا وہ سرفراز ہوگا چاہئے مولوی اسماعیل ہو یا حسن الہیاری یا کوئی عام طالب علم۔ لذا ہمارے جوان اس مکتبی خصوصیت کو فردی خصوصیت و کمال نہ سمجھیں۔
استعمار نے انہیں شیعہ سنی اختلافات کو بڑھانے اور شیعہ نوجوانوں کو اپنے مراکز قم و نجف اور مراجعین بالخصوص نظام ولایت فقیہ سے دور کرنے کے لئے میدان میں اتارا ہے ۔ اس صورت حال میں ہمارے جوانوں کو عقل و بصیرت سے کام لیتے ہوئے اپنے مرکز سے منسلک رہنے کی ضرورت ہے۔
نوربخشیوں کے بارے میں الہیاری کا جواب:
اس بندے کو ہرقسم کی سہولیات دےکر آگے لانے کا اصل مقصد مسلمانوں کے درمیان موجود اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ الہیاری سے جب مسلک نوربخشیہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو خلاف توقع اس نے انتہائی کم علمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں گمراہ قرار دیا۔ میرے خیال میں یہ الہیاری کا کمزور ترین و غیر منطقی ترین جواب تھا۔ اس جواب کے ذریعے الہیاری نے ہزاروں نوربخشی شیعہ جوانوں کا دل دکھانے کے ساتھ بلتستان کے ماحول کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ شیعہ نوربخشیہ حضرت نور بخش علیہ رحمہ کے مقلدین کا نام ہے۔ مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کی وجہ سے انہیں گمراہ قرار دینا سراسر ظلم ہے۔ خود الہیاری تو اخباری ہے اصول و تقلید سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ ہمارے نزدیک تو الہیاری سے بڑا شیعہ، مومن اور عزادار نوربخشیہ حضرات ہیں۔ میرا نوربخشیہ علماء اور جوانوں سے گزارش ہے کہ الہیاری جیسے استعماری ایجنڈے کے تحت بولنے والوں کو شیعوں کا نمائندہ نہ سمجھا جائے اور ایسے لوگوں سے دور رہا جائے۔
3۔ شیخ صبحی طفیلی
شیخ صبحی 1948 میں بقاع کے درہ میں مشہور شیعہ نشین شہر بعلبک کے نزدیک ایک گاؤں "بریتال" میں پیدا ہوئے۔انہوں نے دینی علوم نجف اشرف سے حاصل کئے ۔آپ شہید باقر الصدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
1978 میں انہوں نے بقاع کے علاقے میں "تجمع علمائ مسلمین" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی
1985میں حزب اللہ کی تشکیل کے چار سال بعد پہلے انتخابات میں یہ بندہ جنرل سکریٹری منتخب ہوا۔
ان کے بعض اعتقادات و نظریات کے بعد 1991میں شورای کے دوسرے انتخابات میں سید عباس موسوی شہید جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ اس شکست کے بعد صبحی طفیلی پر منفی اثرات بڑھ گئے۔اس شکست کے بعد بظاہر حزب اللہ سے فاصلہ اختیار کیا گیا اور ایک عادی رکن بن گیا ۔شہید عباس موسوی جو نجف میں ان کے شاگرد بھی رہ چکے تھے نے انہیں حزب اللہ کی مرکزی شورای میں لے آئے۔
پانچویں شورای میں حزب اللہ کا جنرل سکریٹری منتخب کرنے کا مسئلہ پیش ایا۔ اس الیکشن میں سید عباس موسوی اور شیخ صبحی طفیلی کو پانچ پانچ ووٹ ملے۔تین بار ووٹنگ ہوئی تینوں بار دونوں نے پانچ پانچ ووٹ لئے ۔ مسئلے کا حل آخر قرآنی فال سے نکالنے پر ہوا تو شیخ صبحی کا نام نکل آیا یوں وہ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ پھر ڈیڑھ سال بعد انتخابات ہوئے تو سید عباس موسوی شہید جنرل سکریٹری منتخب ہوئے جو شہادت تک اس عہدے پر باقی رہے۔
پانچویں شورای کی مدت ختم ہونے سے پہلے لبنانی پارلیمنٹ کے الیکشن تھے۔ حزب اللہ نے اس الیکشن میں حصہ لینے کے لئے شورای میں رائ طلب کی۔ اس میں شیخ طفیلی اور حسین کورانی نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اکثریت الیکشن کے حق میں ہونے کے باوجود اختلافات سے بچنے کے لئے معاملے کو رہبر معظم سے پوچھنے اور رہبر کے حکم پر عمل کرنے پر اجماع کیا۔
رہبر معظم نے لبنانی جمہوری الیکشن میں حصہ لینے کا حکم دیا تو شورای کے سارے ارکان نے جمہوری الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔
شورای کے متفق علیہ فیصلے پر شیخ صبحی طفیلی بدک گیا۔ انہوں نے رہبر کے حکم کو رد کرتے ہوئے غصے سے شورای سے احتجاجاً مستعفی ہوگیا۔
شیخ طفیلی نے جمہوری الیکشن میں حصہ لینے کی فقط مخالفت نہیں کی بلکہ اسے حرام عمل قرار دیا۔
شیخ طفیلی یہیں نہیں رکا بلکہ منبروں اور تقریروں میں کھل کر حزب اللہ کے خلاف تقریریں شروع کر دیں ۔ سید حسن نصر اللہ کے بقول حزب اللہ نے کوئی رد عمل نہیں دکھائ لیکن شیخ طفیلی کافی آگے نکل گیا۔ جمہوری الیکشن میں شرکت کو کھلم کھلا حرام عمل قرار دیتارہا۔ (گویا حزب اللہ کو امامت و ولایت کا منکر قرار دیتا رہا) ۔ حزب اللہ کے مخالفین اور سیکولر تنظیمیں ان سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے لئے ان کی تقریروں اور بیانات کو سراہتی اور اچھالتی رہیں ۔اب بھی ہر الیکشن کے موقع پر ان کے چیلے حزب اللہ کے خلاف بہت متحرک ہوتے ہیں۔
حزب اللہ سے مکمل جدا ہونے کے بعد 1998 میں بقاع کے درہ میں ثورۃ الجیاع کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ تحریک شدید لڑائی کا باعث بنی کئی لوگ مارے گئے ۔سینکڑوں زخمی ہوئے۔ بالآخر لبنانی فوج نے ان کو اپنے گھر میں نظر بند کردیا۔ انہیں آخری سالوں میں انہوں نے اپنے نظریات کے پرچار کرتے ہوئے سعودی و مغربی میڈیا کو کئی انٹرویوز دیئے ۔ سعودی و مغربی میڈیا نے انہیں کافی کوریج دی۔ اپنے انٹرویوز میں یہ بندہ حزب اللہ،حسن نصراللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کرتارہا ۔ خدا کا شکر ہے سعودی و مغربی میڈیا کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان کے باطل نظریات کا لبنان کے باشعور جوانوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ حزب اللہ آج بھی لبنانی الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور اپنے مخصوص کوٹے کے علاؤہ مسیحی کوٹے پر بھی اپنے امیدوار کو جتواتی ہے۔مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد اور محور مقاومت کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ شام میں ترکی کی موجودگی کی حمایت اور ایران کی موجودگی کا سخت مخالف ہے۔رہبر کے افکار و احکام کی معمولی مخالفت پھر انسان کو داعشی فکر و نظر کا حامی بناتا ہے۔ خداوند عالم ہمیں صبحی طفیلی کا مقلد بننے کی بجائے عملی میدان میں ولی فقیہ کا مقلد بننے کی توفیق اور حزب اللہ لبنان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان میں انتخابی سیاست میں تشیع کی پہچان اور حقوق کی حفاظت کرنے والی تنظیموں اور علماء کو سلامتی کے ساتھ کامیابی عطا فرمائے! آمین
نتیجہ:
ان شخصیات کے نظریات ،عقاید اور جدوجہد سے، میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ استعمار انقلاب اسلامی ایران کے بعد تشیع کی سیاسی قوت سے انتہائی خوفزدہ ہے۔
نظریۂ امامت و ولایت جو پہلے ایک قلبی و فکری قبولیت کے طور پر شیعوں کے عقاید و کتابوں میں تھا، اسے امام خمینی علیہ الرحمہ نے سیاسی شعور میں بدل کر "جمہوری اسلامی" کی شکل میں پیش کیا ۔
آج عراق،لبنان،یمن،بحرین۔ نائجیریا اور پاکستان میں شیعہ علمائے کرام اور مومنین کی سیاسی بیداری اور جدوجہد سے استعمار سخت پریشان ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان شخصیات کو استعمار نے ہی پالا ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے نظریات اور جدوجہد سے استعمار ہی فایدہ اٹھارہا ہے۔شیخ صرخی کے مجتہدین اور علماء کرام کو خمس خور اور جمہوری کہنا اور سیاسی میدان میں فعال علماء کو جمہوری لقب دینا واجب القتل سمجھنا،سعودی و مغربی میڈیا سمیت سوشل میڈیا پہ علما ء کے خلاف توہین آمیز مہم چلانا،ایران میں انقلاب مخالف طبقے کا علما ء کو مفت خور،خمس خور کہنا، گزشتہ ہنگاموں میں علماء کے عماموں کو گرانا اس کی کلپ بناکر مغربی میڈیا پر چلانا یہ سب استعمار کے اسی خوف و پریشانی کا عملی مظاہرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار سیاسی میدان میں فعال علمائے کرام کے مخالفین کو ہرقسم کی سہولیات اور خفیہ تعاون سے انہیں مضبوط کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ افراد شعوری یا لاشعوری طور پر یا انجانے میں شیخ صرخی و شیخ طفیلی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ علماء حقہ کو جمہوری اور غیر جمہوری میں تقسیم کرنا، مفت خور و خمس خور کہنا،نظام امامت و ولایت اور مہدویت کا منکر قرار دینا،تشیع کے دائرے سے نکالنے کے بعد کافر و مشرک کہنا دراصل یہ شیخ صرخی و شیخ طفیلی کی تقلید تو ہوسکتی ہے ،مردم سالاری و اسلامی جمہور کا نظریہ رکھنے والے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا مقلد نہیں ہوسکتا ۔ اس قسم کے نظرئیے اور دعوے پاکستان میں نظریہ ولایت فقیہ کو کمزور کرنے کا سبب بنیں گے۔
ملک خداداد پاکستان میں جو بھی نظریہ ولایت فقیہ کا قائل ہے اسے چاہیئے کہ عملی میدان میں رہبر معظم کی تقلید کریں۔
ممکن ہے ہمارا دعویٰ رہبر کے مقلد ہونے کا ہو لیکن عملی میدان میں ہم لا شعوری طور پر شیخ صرخی اور شیخ طفیلی کے مقلد ہوں۔میں اس موضوع پر تمام محققین کو تحقیق کی درخواست کرتا ہوں تاکہ سادہ لوح اور کم پڑھے لکھے نوجوان غیر شعوری طور پر ان پر فریب و مقدس نما نعروں کے زریعے شیخ صرخی و شیخ طفیلی کا مبلغ نہ بن سکے۔
اس بارے میں سوچ لیجئے گا، کیونکہ سوچنے والوں کی دنیا، دنیا والوں کی سوچ سے مختلف ہوتی ہے۔
حوالہ جات:
1.نہج البلاغہ
2.الجزیرہ عربی
3.بی بی سی عربی
4.فارس نیوز
5.الیوم العربیہ
6.کتاب سید عزیز فارسی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔